ملک شکیل اعوان: پاکستان کی بیوروکریسی کے لیے ایک مثال

0
234
ملک شکیل اعوان سیکرٹری ٹو صدر پاکستان
حکومت پاکستان میں اپنی خدمات مکمل کر چکے ہیں، انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پیج پر اپنی حالیہ پوسٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ وہ کس طرح متوسط ​​گھرانے سے اپنے عزم اور جدوجہد کے ساتھ اٹھے اور ملک کی بیوروکریسی کے اعلیٰ مقام تک پہنچے۔ ہم ان کی تحریر یہاں ان کی اجازت سے دوبارہ پوسٹ کر رہے ہیں صرف اس لیے کہ نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے کہ وہ کامیابی کے لیے محنت کریں اور شارٹ کٹ تلاش نہ کریں، اور نوجوان بیوروکریٹس کو یہ سمجھانے کے لیے کہ انھیں کیسے کام کرنا چاہیے، ملک شکیل اعوان ان کے لیے پیروی کی ایک اچھی مثال ہیں۔ تزئین اختر ایڈیٹر
——————————-
آج ابھی ای میل آئ ہے کہ پندرہ جنوری سے میری تنخواہ بند ہوجائے گی۔ میری نگاہوں میں ایک لمحے میں اپنی زندگی کے ساٹھ سال گذرے جن میں سے 43 سال میرے حکومتِ پاکستان کی نوکری کرتے گذرے۔ اس سے پہلے بھی دو تین سال مختلف کام کرتے گذرے۔ کوئ کھیل کھیلنے کا وقت نہیں ملا۔ مجھے وہ دن یاد آیا جب میں تقریباً سترہ سال کی عمر میں محکمہ ڈاک میں گیا۔ ایک بچہ گھر سے نکلتا تھا اور رات کو واپس آتا تھا کیونکہ صبح سرسید کالج پنڈی اور شام کو ڈاکخانے میں کام کرتا تھا۔
کلاس میں میرا رولنمبر 401 یعنی پہلا تھا کیونکہ میٹرکولیشن میں میرے نمبر راولپنڈی ڈویژن میں سب سے ذیادہ تھے۔ میری پڑھائ وہی ہوتی تھی جو کالج میں کر لیتا تھا۔ اس کے علاوہ لٹریری سرگرمیوں، مباحثے وغیرہ میں بھی حصہ لیتا تھا۔ میں کالج میگزین “سرسیدین” کا مدیر بھی رہا۔ سٹوڈنٹ یونین کا آخری الیکشن بھی 1983 میں لڑا اور جیتا حالانکہ میں نعمان سلیم کے دعوے پر کہ میرے مقابلے میں کون کھڑا ہوگا اسلئے کھڑا ہوا کہ جہاں کوئ کھڑا نہ ہو وہاں میں کھڑا رہتا ہوں۔
فیڈرل بورڈ کا رزلٹ آیا تو میں بورڈ میں سیکنڈ تھا۔ میرے ابا جی بھی محکمہ ڈاک میں تھے۔ ان سے معاصرانہ چشمک کی وجہ سے محکمہ ڈاک والوں نے میری شام کو کام کرنے کی سہولت ختم کردی۔ ابا جی نے نوکری سے استعفے کا کہا لیکن میں جو پیسے امی جی کے ہاتھ میں یکم کو دیتا تھا اور انکی آنکھوں میں ایک خوشی کی چمک آتی تھی اس کی وجہ سے نوکری نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ میرے چھوٹے پانچ بھائ تھے۔ بہن کی شادی ہوچکی تھی۔
میں نے محکمہ ڈاک میں پوسٹل کلرک کے طور پر چھ سال نوکری کی۔ ایک ایک دن مجھے یاد ہے۔ اس دوران میں نے خود پڑھ کر اکنامکس کے ساتھ بی اے کیا۔ اس زمانے میں جہاں اپلائ کرتا میں سیلیکٹ ہو جاتا لیکن میرا خیال تھا کسی ایسے محکمے میں جاؤں جہاں پڑھنے کے مواقع ملیں کوئ باہر کا سکالرشپ مل جائے۔ آرمی میں بھی سیلیکشن ہوئ لیکن جا نہ سکا کیونکہ دینے کے بجائے گھر سے پیسے لینے پڑتے تھے۔ میں نے میٹرک میں سول سروس کے بارے میں پڑھا تھا اور ہمیشہ ذہن میں یہی نصب العین رہا۔
میں نے وزارت تعلیم میں اسسٹنٹ کے طور پر جوائن کیا کہ یہاں کوئ سکالرشپ ملے گا۔ وہاں جاکر اندازہ ہوا تعلیم کے علاوہ ہی سب کام ہو رہے تھے۔ پہلے میں نے ایم اے اکنامکس کی تیاری کرکے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ بھیجا لیکن یونیورسٹی نے قبول نہ کیا کہ بی اے کے بعد تین سال بعد دے سکتا تھا۔ پھر میں نے ایم اے انگریزی کی تیاری کی۔
دو گاڑیاں تبدیل کرکے میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں گھر پہنچتا۔ میں نے ایف کے بعد ایف اے والوں کو پڑھانا شروع کیا اسی طرح بی اے کے بعد بی اے کی انگریزی پڑھاتا۔ گھر پہنچتا تو میرے شاگرد انتظار کر رہے ہوتے۔ ان میں سے کچھ فیس دیتے تھے اور کچھ نہیں دیتے تھے۔ میں کسی سے مانگتا نہیں تھا۔ ان حالات میں ایم اے انگریزی کی تیاری کی اور سات پیپیرز اکٹھے دیے۔ جس دن میرا ولیمہ تھا اس دن رزلٹ آیا اور میں ایم اے انگریزی ہوگیا۔
میں نے سی ایس ایس کا داخلہ بی اے کی بنیاد پر بھیج رکھا تھا۔ شادی ہوئ تو مجھے خیال آیا ابھی تک باقاعدہ سی ایس ایس کی تیاری شروع نہیں کی۔ دفتر سے چھٹیاں لیں اور گھر بیٹھ گیا۔ امتحان میں تین ماہ رہتے تھے۔ ان میں تیاری کرکے امتحان میں بیٹھا اور امی جی کی دعا کے مطابق کہ ایسا گروپ آئے کہ پنڈی اسلام آباد سے باہر نہ جاؤں آفس مینیجمنٹ گروپ آیا اور چونکہ امی جی نے حکم دیا تھا مزید کوشش کی ضرورت نہیں اسی گروپ میں “ پوڑھی اخیر تک ویسیں “ ان کی اس دعا اور پیشن گوئ کے مطابق گریڈ بائیس میں پہنچا اور آخری “ پوڑھی” ایوانِ صدر پہنچ گیا۔ صدرِ مملکت نے مجھے تین سال کے کنٹریکٹ کا احسانِ عظیم فرمایا ہے۔

Former Caretaker PM, Senator Anwar ul Haq Kakar Appointed Member BRI Advisory Council – Expresses High Optimism about CPEC 02

صدر مملکت ایک دانشور ، ذہین ترین انسان ، خدا ترس، درویش اور ولی ہیں جو ملک کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

میں نے سحری میں گھر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کریم سے تین سال مانگے تھے کہ تریسٹھ سال تک نوکری کروں۔ میرے ابا جی تریسٹھ سال کی عمر میں اللہ کریم کے پاس گئے۔ وہ کہتے تھے تریسٹھ سال میں دنیا سے جانا آقا جی صل اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ پندرہ جنوری سے میری کنٹریکٹ کی جاب شروع ہو جائے گی لیکن میرا ایک طویل ترین کیرئر ( جو شاید ہی کسی اور کا ہو) چودہ جنوری کو پورا ہو رہا ہے۔
سول سروس میں میں نے ہمیشہ اپنے طور پر فیصلے کئے اور اسکے بعد کبھی نتائج کا نہیں سوچا۔ نہ کبھی کسی پریشر سے پریشان ہوا۔ ہمیشہ اللہ کریم سے مدد مانگی اور ملی۔ ان فیصلوں کے نتائج بہت مثبت اور دوررس ہوئے۔ اللہ کریم نے مجھے قوتِ فیصلہ اور کچھ حکمت سے نوازا ہے۔ میں نے کبھی اپنی ذات کے لئے فیصلے نہیں کئے۔ ہمیشہ یہ سوچا کہ اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا۔ چند بڑے مواقع ملے جن میں بہت کچھ بن سکتا تھا لیکن پہلے دن سے والدین نے کہا تھا شفاف نوکری کرنی ہے۔ اللہ کریم نے ہمیشہ حفاظت فرمائ۔
تینتالیس سال نوکری کے بعد میں اپنے ملک اور اس کے اداروں کا احسان مند ہوں جس نے مجھ جیسے نالائق انسان کو گریڈ سات سے بائیس میں پہنچایا۔ یقیناً میں وطنِ عزیز کی خدمت کا حق نہیں ادا کر سکا لیکن اپنے تئیس کوشش کی اور جو میرے لئے ممکن تھا وہ کیا۔ میرا دل مطمئن ہے۔ میرا اپنا ذاتی گھر مکمل نہیں لیکن اس ملک میں میں آزادی سے گھومتا ہوں لکھتا ہوں۔ اللہ کریم نے مجھے تابع فرمان اولاد سے نوازا ہے۔
سروس کے دوران میرے سامنے گھمبیر مسائل آئے صدمے ملے۔ لیکن مجھے ابا جی سے ایسا صبر اور استقلال ملا جو کم ہی کسی میں ہوتا ہے۔ صحت کے بڑے مسائل آئے لیکن ڈائیلیسز کروا کر دفتر آتا تھا۔ مسائل کے سامنے ہمیشہ مسکرایا ہوں۔ اسی لئے مزاح لکھتا ہوں۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد اللہ نے نئ زندگی دی۔
میں نے ان تینتالیس سالوں میں صرف دو بار ٹوٹل پانچ ماہ کی چھٹی لی۔ پہلی بار سی ایس ایس کی تیاری کیلئے اور دوسری بار کڈنی ٹرانسپلانٹ کیلئے چھٹی لی۔ اب میری پانچ سال سے زائد چھٹی موجود ہے۔ میں نے اپنی افسری کو اختیار کے بجائے ذمہ داری سمجھا اور ہمیشہ یہی اصول مدنظر رکھا۔ صدر پاکستان کا سیکرٹری ہوں تو امین ہوں یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے۔

Pakistan in the World – December 2024

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here