میرا وطن میرا مقتل……بیرون ملک مقیم خواتین کی کہانیاں جنہیں پاکستان لاکر قتل کرد یا گیا۔ شاہین کمال

0
157

شاہین کمال

بیرون ملک مقیم خواتین کی کہانیاں جنہیں پاکستان لاکر قتل کرد یا گیا

جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے

کیا خبر کون کہاں کس کا نشانہ بن جائے

ساجدہ تسنیم

اس سال بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں ہم لوگ پاکستان میں گزاریں گے۔ میں بھی بحرین سے پاکستان پہنچ جاؤ گا اور تم بھی اسکول بند ہوتے ہی تینوں بچوں کو لے کر سرگودھا پہنچنے کی تیاری کرو۔ دادا ،دادی اور سب رشتے دار بچوں سے ملنے کو بےتاب ہیں ۔ سنو ساجدہ میں تاکیداً کہ رہا ہوں کہ چلنے کی تیاری لازمی پکڑ لو۔

ایوب کے اس حکم نامے نے میری طبیعت مکدر کر دی۔ میں بالکل بھی پاکستان نہیں جانا چاہتی تھی ۔ میری نظروں میں سسرال کی پچھلی تمام چخ چخ گھوم گئی مگر مصیبت یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کے پاس اختیار نہیں ہوتا۔ ویسے ہی ہم دونوں میاں بیوی طویل فاصلے کے الجھے رشتے کا سیاپا جھیل رہے تھے سو میں ایوب سے مزید بد مزگی نہیں چاہتی تھی۔

ٹھہریں میں تھوڑا سا اپنا تعارف کراتی چلوں ۔ میں ساجدہ تسنیم ہوں۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا اور 2010 میں، میں نے کراچی کی انجینیرنگ یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں ڈگری لی۔ اگلے ہی سال میں اور ایوب رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ، ایوب بھی انجینیئر تھے۔ سسرال میری پنجاب کے ضلع سرگودھا کے چک نمبر 137 میں تھی۔ میری سسرال کا ماحول بہت گھٹا ہوا تھا اور ہر بات پہ روک ٹوک تھی۔

اللہ کا شکر کے شادی کے کچھ ہی ماہ بعد ہم دونوں کی نوکری سعودی عرب میں لگ گئی ۔ وہیں ہمارا بیٹا پیدا ہوا۔ میری اچھے مستقبل کی تلاش کی جستجو جاری تھی اور میری قسمت نے یاوری کی۔ 2013 میں مجھے آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں اچھی نوکری مل گئی ۔ ہم تینوں وہاں منتقل ہو گئے ۔ وہاں میں نے اپنے شعبے سے متعلق مزید امتحانات دیے اور کامیاب رہی۔ یہیں ہماری دو بیٹیاں بھی پیدا ہوئیں ۔

Pakistan in the World – May 2025

عجیب اتفاق کہ ایوب پرتھ میں نہ جم سکے اور مجبوراً انہیں نوکری کے سلسلے میں بحرین جانا پڑا اور یوں ہم زندگی میں طویل فاصلے کے رشتوں کی الجھنوں سے متعارف ہوئے ۔ ہم چاروں کو آسٹریلوی شہریت بھی مل چکی تھی اور ہم سب بہترین طریقے سے سیٹ تھے۔ میرے سسر کا خیال تھا کہ بچیاں بڑی ہو رہی ہیں لہزا مجھے بچوں کے ساتھ پاکستان واپس آ جانا چاہیے ۔ میں اس تجویز کی بالکل بھی حامی نہیں تھی مگر مشکل یہ تھی کہ ایوب بھی اسی خیال کے ہمنوا تھے اور اس بات پہ اکثر ہمھاری تلخ کلامی بھی ہو جاتی تھی۔

میں تینوں بچوں کے ساتھ اسلام آباد پھر سرگودھا چک نمبر 137 پہنچی، ایوب نے تین دن کے بعد پہنچنا تھا۔ سسرال میں پرجوش استقبال ہوا اور بڑی چہل پہل رہی۔ میں اور بچے سب ہی خوش تھے ،” ابّے نے آکھیا تھا دھی رانیئے، آپنا پاسپورٹ میرے کول رکھ چھڈ اجّ کل چوری چکاری بوہت ودھ گئی اے۔ “

چاروناچار مجھے پاسپورٹ رکھوانا پڑا۔ دوسرے دن ایوب کا ٹیلی فون آیا کہ ان کی چھٹی کینسل ہو گئی ہے اور پھر سسرالیوں کا رویہ بد سے بدتر ہونے لگا۔ یہاں تک کہ ہمھاری وآپسی کی ڈیٹ آ گئی مگر ابٌے نے ہمارے پاسپورٹ واپس نہ کیے۔ ان کی ایک ہی رٹ تھی کہ بچیاں بڑی ہو رہی ہیں، اس لیے اب کافروں کے ملک میں نہیں رہنا ہے۔ میرے بچوں کی پڑھائی کا ہرج ہو رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ میری نوکری بھی داؤ پر لگ گئی تھی مگر ہم لوگ پاکستان ہی میں پھنسے ہوئے تھے۔

وہ سترہ جون 2022 کا گرم ترین دن تھا، اس دن صبح ہی سے گھر میں ہنگامہ برپا تھا اور تنگ آ کر میں نے اپنے والد کو بھی ساری رام کہانی کہہ سنائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ آتے ہیں اور آ کر میرے سسر سے بات کرتے ہیں ۔ میں اوپر کے کمرے میں تھی کہ میرے سسر غصے میں بھرے دندناتے ہوئے کمرے میں آئے اور میرے ہی ڈوپٹے سے میرا منہ باندھ کر مجھےکلہاڑی کے پہ در پے وار سے ختم کر دیا۔ ایک ماں کی زندگی اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی چاہ میں بجھا دی گئی ۔

یہ جرات نگاہ کسی اور میں نہیں , سورج کو دیکھ آ نکھ دکھانے لگی ہوں میں ! ادبی حلقوں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کا المیہ ! رخسانہ سحر کے قلم سے

عروج اور انیسہ

اماں ہم دونوں بہنوں کو بہلا پھسلا پاکستان لے آئی، ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کی مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ہم دونوں بہنیں عروج اور انیسہ، ابا اماں کے ساتھ بچپن ہی میں سپین چلے گئے تھے۔ وہیں پڑھا لکھا اور جوان ہونے پر ابا نےہم دونوں بہنوں کا نکاح اپنے بھائی، بہن کے گھر کر دیا۔ ہم دونوں بہنیں اس نکاح سے انکاری تھے۔ اماں پاکستان یہ کہہ کر لائیں کہ اپنے منہ سے انکار کر دینا، برادری کا معاملہ ہے ایسے دور بیٹھے انکار کرنا زیب نہیں دیتا۔

جب یہاں گجرات کے ایک گاؤں نوتھیہ پہنچے تو روز رخصتی کا تقاضا ہوتا اور لڑکوں کے کاغذات کی تیاری پر دیر کا قضیہ کھڑا رہتا۔ ایک دن میں(عروج) نے اور انیسہ نے دل کڑا کر کے چچا کے سامنے رخصتی سے انکار کیا اور گویا ہم دونوں پر جہنم کے دہانے کھل گئے، چچا، ہم دونوں کے شوہر اور سارے کزنز سب کے سب آٹھ دس مرد ہم لوگوں پر پل پڑے اور مار مار کر ہم لوگوں کو آدھ موا کر دیا، مگر ابھی ان کی تسلی نہیں ہوئی تھی لہزا ہم دونوں بہنوں کے جسموں میں دھکتا ہوا لوہا بھی اتار دیا گیا۔

سپین سے دو ہنستی مسکراتی لڑکیاں آئیں اور 20 مئی 2022 کو پاک سر زمین پر رشتے سے انکار پر جان سے گئیں۔

ردا شہزاد

آج شہزاد کا موڈ خلاف معمول بہت خوشگوار تھا اور اس نے ناشتے کے بعد اعلان کیا کہ آج ہم سب شاپنگ پر راہوالی کینٹ چلیں گے۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ گھر میں کئی دنوں سے چلتی بحث کے باعث ماحول بہت کشیدہ تھا۔

ہماری شادی 2010 میں ہوئی اور میں چوں کہ کینیڈا کی شہری تھی سو میرے وکیل شوہر بھی کینیڈین امیگریشن پر وہاں آ گئے ۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا اور ہم اور ہمھارے بچے ایک خوشگوار زندگی بسر کر رہے تھے کہ 2019 میں شہزاد کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ۔ اس سرجری کے باعث شہزاد disability benefits پر چلے گئے اور یہیں سے ایزی منی ان کے منہ کو لگی۔

شہزاد کا اصرار تھا کہ ہم لوگ کینیڈا کی سکونت ترک کر کے واپس پاکستان، وزیرآباد چلیں کہ compensation کے پیسوں پر پاکستان میں بہت اچھی زندگی گزاری جا سکتی ہے مگر میں بچوں کے بہتر مستقبل کی وجہ سے شدت سے انکاری تھی۔ طویل تکرار اور گھر کے مکدر ماحول کی بہتری کے لیے میں گرمیوں کی چھٹیاں پاکستان میں گزارنے پر رضامند ہو گئی ۔ یہاں حسن والی پہنچتے ہی شہزاد نے پینترا بدل لیا اور یہاں ان کی ہم نوائی میں ان کے ماں باپ اور پورا خاندان شامل تھا۔

انجام کار اس دن راہوالی کینٹ سے خریداری سے واپسی کے راستے میں ڈکیتی کے ڈرامے میں میری جان لے لی گئی ۔ کرائے کے ڈاکو نے مجھ سے موبائل چھینتے ہوئے مجھے تین گولیاں ماریں اور میں موقع پر ہی دم توڑ گئی، یوں شہزاد نے بڑی آسانی سے مجھ سے جان چھڑا لی ۔

شہزاد نے تھانہ احمد نگر میں رپورٹ درج کروائی ، ایف آر آئی کے مطابق دو ڈاکوؤں نے کار روکی، ان سے چالیس ہزار روپے چھینے اور مجھ سے یعنی ” ردا شہزاد ” سے موبائل چھیننے کی کوشش میں مزاحمت کے دوران مجھ پر گولیاں چلا دیں۔

پولیس کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ کرائے کا قاتل محسن مسیح کو دو لاکھ روپے کے عوض، شہزاد نے مجھے قتل کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔ یہ سازش فون ریکارڈ کو ٹریک کرنے پر سامنے آئی ۔

’چچا ہم کو مت مارو‘ ۔ غیر سید سے پسند کی شادی ۔ مانسہرہ میں ’غیرت کے نام پر‘ خاتون اور 16 ماہ کی بچی قتل

وجیہہ سواتی

سولہ اکتوبر کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے لاپتہ ہونے والی امریکی شہری وجیہہ سواتی کی لاش، پولیس کو خیبرپختونخوا کے علاقے لکی مروت سے ملی، جہاں انہیں ایک مکان میں دفن کر کے اس کے اوپر فرش پکا کر دیا گیا تھا۔

قتل ان کے سابقہ شوہر رضوان حبیب بنگش نے کیا۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق وجہہ سواتی اپنی لاکھوں روپے کی جائیداد رضوان حبیب سے واپس مانگ رہی تھیں، جو انہوں نے طلاق سے قبل اپنے شوہر کے نام منتقل کی تھی۔ اپنے ہی پیسے کی وصولی کے سوال پر ایک عورت اپنی جان سے گئی ۔

قرات العین بلوچ

شراب کے نشے سے دھت ہر شب کی مار پیٹ میری زندگی کا معمول تھی۔ میں ایک معزز خاندان کی بیٹی اور بہو تھی جو دو مضامین میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری بھی رکھتی تھی۔ میں نے بارہا اپنے میکے میں شوہر کے ناروا سلوک کی شکایت کی مگر ہر بار مجھے برداشت، صبر اور روایتی مشرقی عورت کا درس دیا گیا۔

میرے باپ اور بھائی معاشرے میں اپنی ناک نیچی ہونے کے ڈر سے ہر بار مجھے اس عقوبت خانے میں واپس لوٹا دیتے تھے۔ مجھے میرے شرعی حق خلع کی بھی آزادی نہیں تھی ۔ میرا سسرال بہت با اثر تھا کہ میں سابق سیکرٹری آبپاشی سندھ خالد حیدر میمن کی بہو، ان کے بیٹے عمر میمن کی بیوی تھی۔

اس رات یعنی 15 جولائی 2021، میں نے عمر سے بچوں کے کپڑوں کی خریداری کے سلسلے میں بات کی تھی جس کی پاداش میں مجھ پر میرے بچوں کے سامنے شدید تشدد ہوا ۔ میرے جسم کی کئی ہڈیاں ، بشمول ناک اور آنکھ کی ہڈی توڑی گئی اور میرا گلا گھونٹ کر مجھے مار دیا گیا۔

میں قرت العین بلوچ ، محض بتیس سال کی عمر میں ایک اذیت ناک ازدواجی زندگی بھگت کر جان سے مار دی گئی۔ روز جزا میں اپنے میاں، سسر، باپ اور بھائی سب کا گریبان پکڑوں گی اور اپنے خونِ ناحق کا حساب لوں گی۔

اور شبانہ مر گئی

سارہ انعام

میں سارہ انعام ہوں، جو جیو اور جینے دو پر یقین رکھتی تھی۔ میں نے یونیورسٹی آف واٹرلو سے 2007 میں آرٹس اور اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جونئیر ایویلیوئیش آفسر کے طور پر کام شروع کیا ۔ 2010 میں ابو ظہبی میں ” ڈیلوئیٹ ” میں شمولیت اختیار کی اور یہیں “ایجوکیشن اینڈ نالج” میں بھی شمولیت اختیار کی۔ 2021 میں ابو ظہبی ہی میں معیشت کے ادارے میں ملازمت اختیار کی۔ میں اپنے والدین کی لاڈلی اور دوستوں کی جاں نثار دوست اور کتابوں کی رسیا تھی, جو سینتیس سالوں تک زندگی سے فیضیاب ہوتی رہی۔

جی میں ” تھی “بنا دی گئی، اس دنیا سے ایک حرف غلط کی طرح مٹا دی گئی۔ ایک غلط انتخاب نے مجھ سے میری زندگی چھین لی۔ میں آن لائین، شاہنواز امیر جو کہ مشہور صحافی ، کالم نگار اور سیاست دان ایاز امیر کے بیٹے ہیں ، ان سے متعارف ہوئی ۔ بہت جلد اس دوستی نے محبت کا روپ دھار لیا اور پھر محبت، شادی کے مقدس بندھن بندھ گئی۔

شادی کے بعد جلد ہی مجھ پر شاہنواز کی عیاش اور لالچی طبیعت آشکار ہوئی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے میری دولت بے دریغ لٹا رہا تھا۔ میں انہیں معمالات پر شاہنواز سے بات کرنے 22 ستمبر 2022 کو اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں واقع اس کی ماں کے فارم ہاؤس پہنچی اور وہاں اپنی ساس کی موجودگی میں بے دردی سے ڈمبل کے پہ در پہ وار سے مار دی گئی ۔

گھریلو تشدد جیسے جرائم کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر طبقے ، معاشی پس منظر اور تعلیمی قابلیت والی خواتین اس کا شکار ہیں ۔اس میں قرت العین بلوچ جیسی ایم ایس سی، ایم بی اے پاس خواتین بھی، معاشرے کی مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی نور مقدم اور اپنی زندگی پر با اختیار ، معاشی طور پر مستحکم وجیہہ سواتی یا سارہ انعام جیسی خواتین بھی محفوظ نہیں۔

ایبٹ آباد میں میر پور آزاد کشمیر کی لیڈی ڈاکٹر کی مشتبہ موت، سسرالیوں کا خودکشی کا دعویٰ، شوہر اور اہل خانہ گرفتار

افسوس ناک ترین بات کہ سزا کا تناسب 2% سے بھی کم.ان حالات میں جرائم کی شرح میں تخفیف دیوانے کا خواب.

اپنی حفاظت کیجیے اور اپنے پیاروں سے رابطے میں رہیے ۔ حکومتی ہیلپ لائن نمبر 1099

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here