ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی کتاب “تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو” کی تقریب رونما ئی

0
143

بھٹو شہید فائو نڈیشن کے تحت منعقدہ تقریب میں ادبی شخصیات، اسکالرز صحافیوں کی شرکت، کتابسندھ کی تاریخ، ادب اور ثقافت کا قیمتی اثاثہ ثابت ہو گی قاسم بگھیو
کتاب سندھ کے ادب، تہذیب اور ثقافتی ورثے کی عکاس ہے ،، فرحت اللہ بابر،آصف خان،محمد حمید شاہد نعیم فاطمہ علوی،کشور نائید،سعدیہ طاہر و دیگر کا خطاب

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر)اکادمی ادبیات پاکستان کے سابق چیئرمین اور سندھ کے معروف ادیب ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی نئی کتاب “تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو” کی تقریب رونمائی گزشتہ روز زیبسٹ اسلام آباد کیمپس میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں ملک کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات، ادبی حلقوں کے نمائندگان، اسکالرز، صحافیوں اور ثقافتی شخصیات نے بھرپور شرکت کی۔

تقریب  سے  ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو، کالم نگار کشور نائید، سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، سی ای او شہید بھٹو فاؤنڈیشن آصف خان، معروف افسانہ نگار محمد حمید شاہد، افسانہ نگار نعیم فاطمہ علوی، ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ طاہر، مہران میمن نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی ہیومن رائٹس ونگ، ذوالقرنین اصغر اور دیگر  نے خطاب کیا ۔

ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو نے اپنی کتاب کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب سندھ کے ادبی اور ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو گی۔ انہوں نے اس کتاب میں سندھ کی اہم شخصیات اور ان کے کارناموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

ڈاکٹر بگھیو نے کہا کہ کتاب میں سندھ کے عوام کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کو ایک امید کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، خاص طور پر بھٹو صاحب کے سندھ کے حقوق کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور ان کی حکومتی پالیسیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو ان کی عوامی مقبولیت اور سیاسی محاذ آرائی کے درمیان تضاد پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بگھیو نے بتایا کہ بھٹو نے عوامی نظریات اور سندھ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے آواز بلند کی، لیکن ان کی حکومتی پالیسیاں بعض اوقات متنازعہ بھی بنیں۔ اس تذکرے سے بھٹو کی سیاست کو نئے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تقریب میں محمد حمید شاہد نے ڈاکٹر بگھیو کی شخصیت کو “عوامی دانشور” قرار دیا اور کتاب کی تحریر کی بصیرت پر تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں شامل مضامین نہ صرف سندھ کے ادب کی گہرائی کو اجاگر کرتے ہیں، بلکہ سندھ کی دھرتی کی محبت اور اس کے لوگوں کی جدوجہد کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

نعیم فاطمہ علوی نے کتاب کی نثر کی روانی اور دلچسپی کو سراہا، اور کہا کہ اس کتاب میں سندھ کی صوفیانہ روایات اور خود احتسابی کا عنصر نمایاں ہے۔کتاب “تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو” ایک قیمتی ادبی سرمایہ ہے جو نہ صرف ادب کے شائقین کے لیے بلکہ تاریخ اور ثقافت کے طالب علموں کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں سندھ کے ادبی منظرنامے کی گہرائی اور تاریخی شخصیات کی تفصیل سے تصویر کشی کی گئی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here