یہ دنیا غم تو دیتی ہے، شریکِ غم نہیں ہوتی

0
96
دوستی کا تعلق ہمیشہ سے ایک ایسا رشتہ رہا ہے جو وقت، فاصلے اور حالات کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ سچے دوستوں کے دلوں میں بسنے والے جذبات کبھی مدھم نہیں پڑتے، چاہے زندگی کی مصروفیات کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو جائیں۔ یہی حقیقت میری اور رفیق عارف کی دوستی میں بھی نظر آتی ہے۔
جدہ کے دنوں میں ہماری دوستی بے حد گہری تھی۔ وہ وقت زندگی کے حسین ترین دنوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہر لمحہ، ہر ملاقات یادوں کی صورت آج بھی دل میں زندہ ہے۔ 2002 میں جب میں پاکستان آیا تو رفیق عارف نے اس محبت کو نبھاتے ہوئے راولپنڈی تک کا سفر کیا تاکہ مجھ سے ملاقات کر سکیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ تھا جو سچی دوستی کی اصل پہچان ہے، جہاں تعلقات کو رسمی تقاضوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دل کی زبان خود سب کہہ دیتی ہے۔
لیکن زندگی کی مصروفیات انسان کو کچھ ایسے گرداب میں ڈال دیتی ہیں کہ بے شمار چاہنے والے بھی وقت کی دھول میں کہیں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ ہم دونوں کی زندگی میں بھی یہی ہوا۔ وقت گزرتا رہا، سالہا سال بیت گئے، اور ہماری ملاقات کا سلسلہ رک گیا۔ نہ فون پر رابطہ رہا، نہ خطوط کا تبادلہ، اور نہ ہی فیس بک یا کسی اور ذریعے سے ہم ایک دوسرے کے حالات جان سکے۔
کئی سال بعد اچانک جب مجھے ان کا فیس بک کانٹیکٹ ملا، تو دل کو ایک عجیب سی خوشی ہوئی، جیسے برسوں کی بچھڑی ہوئی خوشبو دوبارہ محسوس ہو رہی ہو۔ ہم نے بات کی، پرانی یادیں تازہ ہوئیں، اور وہی پرانی محبت ایک لمحے میں واپس لوٹ آئی۔ رفیق عارف بھی بے حد خوش تھے کہ اتنے عرصے بعد ہمارا دوبارہ رابطہ ہوا۔
لاہور میں قیصر صاحب کے بیٹے کی شادی تھی، جہاں میں تقریباً پندرہ دن رہا۔ میں نے کئی پرانے دوستوں کو بھی دعوت دی، جن میں رفیق عارف بھی شامل تھے۔ وہ بھی انتہائی محبت اور گرم جوشی سے پیش آئے۔ انہوں نے کئی بار کہا کہ میں ان کے گھر آؤں، لیکن مصروفیات کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ اس کے باوجود، ہماری گفتگو میں خلوص اور محبت کی وہی گرمی برقرار رہی جو برسوں پہلے تھی۔
جب فہد کے ولیمے کا موقع آیا، تو میں نے ایک بار پھر رفیق عارف کو بلایا، اور انہوں نے پورے یقین سے کہا کہ وہ ضرور آئیں گے۔ اور وہ آئے بھی، مگر قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔
ہال میں بے شمار مہمان تھے، ایک کے بعد ایک لوگ مجھ سے مل رہے تھے، اور اسی بھیڑ میں وہ بھی آ گئے۔ انہوں نے مجھ سے گلے بھی ملا، چند لمحے میرے قریب رہے، مگر میں انہیں پہچان نہ پایا۔ یہ کوئی لاپرواہی یا بھول چوک نہ تھی، بلکہ وقت اور مصروفیات کی وہ مہربانی تھی جو چہرے تو یاد رکھتی ہے مگر ان کے نام اور واقعات کو دھندلا دیتی ہے۔
رفیق عارف نے ایک خاص نشانی دی کہ اس وقت میرا بیٹا نوید میرے جیب میں پڑے رومال کو سیدھا کر رہا تھا۔ جب میں نے اس بات کی تصدیق کی، تو مجھے شدید افسوس ہوا کہ وہ واقعی میرے پاس آئے تھے، اور میں انہیں پہچان نہ سکا۔
یہ ایک ایسا لمحہ تھا جو زندگی میں کبھی نہ بھولنے والا سبق بن گیا۔ ایک ایسا دوست، جس نے برسوں تک دوستی کی شمع جلائے رکھی، جو مجھ سے ملنے کے لیے آیا، لیکن میری عدم پہچان نے اس کے دل کو دکھ پہنچایا اور وہ بغیر کھانا کھائے واپس چلا گیا۔
اس واقعے کے بعد جب میں نے ان سے شکوہ کیا کہ وہ ولیمے میں کیوں نہیں آئے، تو ان کا جواب سن کر دل جیسے رک سا گیا۔ انہوں نے کہا، “میں آیا تھا، آپ سے ملا تھا، مگر آپ نے مجھے پہچانا نہیں، اس لیے میں چپ چاپ چلا گیا۔”
یہ الفاظ سن کر میں بے حد شرمندہ ہوا۔ دل میں ایک عجیب اداسی چھا گئی کہ کیسے ہم زندگی کی تیز رفتاری میں ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے دلوں کے سب سے قریب ہوتے ہیں۔ یہ حادثہ ایک سبق بن گیا کہ دوستی، محبت اور تعلقات کو ہمیشہ تازہ رکھنا چاہیے، اور اگر برسوں بعد بھی کوئی ملے، تو اسے اپنانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہونی چاہیے۔
یہ زندگی کی حقیقت ہے کہ جب پرانے دوست ملتے ہیں تو اکثر پہلا سوال یہی ہوتا ہے: “آپ نے مجھے پہچانا؟” اور اگر جواب مثبت نہ ہو، تو دل میں ایک عجیب سی بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ پہچان کا تعلق چہرے اور نام سے زیادہ دل اور جذبات سے ہوتا ہے۔
رفیق عارف! میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں کہ میں آپ کو پہچان نہ سکا۔ یہ میری کوتاہی تھی، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میری محبت میں کوئی کمی تھی۔ دوستی وہ رشتہ ہے جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوتا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ آپ میرے اس احساس کو سمجھیں گے۔
زندگی میں بعض غلطیاں ہمیں وہ سبق دے جاتی ہیں جو کوئی نصیحت بھی نہیں دے سکتی۔ اس واقعے نے مجھے سکھایا کہ دوستوں کو یاد رکھنا، ان کی قدر کرنا، اور اگر کبھی برسوں بعد بھی ملاقات ہو تو انہیں مکمل عزت و محبت سے اپنانا ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر ہم کسی پرانے جاننے والے سے ملیں تو خود اپنی پہچان کروائیں، اور اگر کوئی ہمیں نہ پہچانے تو برا نہ منائیں بلکہ اسے وہ وقت دیں جس کی اسے ضرورت ہے۔
یہ دنیا غم تو دیتی ہے، شریکِ غم نہیں ہوتی
کسی کے دور رہنے سے محبت کم نہیں ہوتی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here