ثقلین امام
اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں ان دنوں یہ چہ مگوئیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ لندن سے اٹھنے والی ایک افواہ نے سنجیدہ سیاسی حلقوں میں جگہ بنا لی ہے۔ اس افواہ کے مطابق موجودہ صدر آصف علی زرداری سے استعفیٰ لیا جا سکتا ہے، یا انہیں مواخذے کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ باتیں تاحال افواہوں کے دائرے میں آتی ہیں، مگر ان کا ایک تاریخی پس منظر موجود ہے، جسے بنیاد بنا کر یہ دعوے کیے جا رہے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 16 اکتوبر 1958 کو اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تھا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ مرزا کی خواہش تھی کہ وہ بطور صدر اپنی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے مارشل لا پر کنٹرول رکھیں، مگر ایوب خان ایک خودمختار سی ایم ایل اے کے طور پر اختیارات سنبھالنا چاہتے تھے۔ یہ طاقت کی کشمکش اُس وقت اپنے انجام کو پہنچی جب اُس وقت کے امریکی وزیر دفاع نیل میک آلروئے کراچی آئے اور بقول حمزہ علوی درپردہ فیصلہ کیا کہ اب ملک کا اصل حکمران کون ہوگا۔ ان کی روانگی کے محض ایک ہفتے بعد جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا سے استعفیٰ لیا اور خود صدر بن گئے۔
پاکستان کے 1973 کے آئین کے تحت، اگر کوئی سرونگ آرمی چیف (Army Chief) ملک کا صدر (President) منتخب ہونا چاہے تو اسے لازمی طور پر فوجی ملازمت (military service) سے استعفیٰ دینا ہوگا۔ آئین کا آرٹیکل 41(2) واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ صدر وہی شخص بن سکتا ہے جو قومی اسمبلی (National Assembly) کا رکن منتخب ہونے کے لیے اہل ہو، اور آرٹیکل 63(1)(k) ہر اس فرد کو نااہل قرار دیتی ہے جو “ریاست کی ملازمت میں ہو” (“in the service of Pakistan”)—جس میں حاضر سروس فوجی افسر (serving military officer) بھی شامل ہے۔
اس قانونی فریم ورک میں، چیف آف آرمی اسٹاف (Chief of Army Staff – COAS) جب تک اپنی کمان چھوڑ کر پاک فوج سے باضابطہ علیحدگی اختیار نہ کرے، صدارتی انتخاب (presidential elections) میں حصہ لینے کا اہل نہیں بن سکتا۔
تاہم استعفیٰ کی یہ شرط اس فرد کے لیے ایک شدید سٹریٹیجک خطرہ بن جاتی ہے جب اسے طاقت کے اصل محور سے استعفیٰ دینا پڑ جائے۔ ایک بار جب COAS مستعفی ہو جائے تو وہ اُس ادارے پر سے اپنا براہ راست کنٹرول کھو دیتا ہے جو اس کی سیاسی طاقت (political influence) کی بنیاد ہوتا ہے، اور یوں وہ بیوروکریٹک مزاحمت (bureaucratic resistance)، سیاسی تنہائی (political isolation)، یا عسکری صف بندی (military reorganization) کا شکار ہو سکتا ہے جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہو۔ ایسے منظرنامے میں سابق جنرل ایک “نشانہ بنی ہوئی بطخ” (sitting duck) بن جاتا ہے—
یعنی بغیر کمان، بغیر تحفظ (immunity) اور بغیر کسی کامیابی کی ضمانت کے، وہ آسان شکار رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طاقت و اختیار کے شعور رکھنے والا فوجی سربراہ یہ چاہے گا کہ وہ وردی میں رہتے ہوئے ہی ملک کا صدر بنے۔ یہی سوال اس تجزیے کا محور ہے: وہ کون سی آئینی و قانونی رکاوٹیں ہیں جو اسے ایسا کرنے سے روکتی ہیں، اور ان رکاوٹوں کو کیسے ختم یا غیر مؤثر (neutralized) کیا جا سکتا ہے؟
اس قانونی رکاوٹ کا بنیادی نکتہ وہ آئینی تقاضا ہے جس کے مطابق صدر کے لیے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کی اہلیت (eligibility) ضروری ہے۔ حاضر سروس آرمی چیف اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ آرٹیکل 63(1)(k) نہایت کلیدی ہے کیونکہ یہ ہر اُس فرد کو نااہل قرار دیتی ہے جو “ریاست کی ملازمت کے معاوضے پر کسی عہدے” (“office of profit in the service of Pakistan”) پر فائز ہو، سوائے ان عہدوں کے جو قانون کے ذریعے واضح طور پر مستثنیٰ کیے گئے ہوں۔
فوجی سربراہ کا عہدہ وزارتِ دفاع کے تحت ایک تنخواہ دار سرکاری منصب ہے اور مکمل طور پر اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ہر حاضر سروس افسر اس حلف (oath) کا پابند ہوتا ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہے گا، سویلین احکامات کی پابندی کرے گا، اور کوئی عوامی عہدہ (public office) قبول نہیں کرے گا۔
وردی میں رہتے ہوئے انتخابی سیاست میں شریک ہونا نہ صرف غیر آئینی (unconstitutional) ہوگا بلکہ آرمی ایکٹ کی براہِ راست خلاف ورزی کے مترادف ہوگا، جس کے نتیجے میں تادیبی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ تاریخی طور پر، پاکستان کے عدالتی و قانونی نظام نے—کم از کم رسمی طور پر—جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد اس سول-فوجی حد بندی (civilian-military boundary) کو برقرار رکھا ہے۔ اس ڈھانچے سے کوئی بھی انحراف اصولی طور پر غیر آئینی تصور ہوگا۔
تاہم، پاکستان کی آئینی تاریخ اس قسم کے انحرافات (deviations) سے خالی نہیں رہی، اور موجودہ قانونی نظام میں تین ممکنہ راستے ایسے ہیں جن کے ذریعے ایک حاضر سروس فوجی سربراہ، استعفیٰ دیے بغیر، صدر بننے کی کوشش کر سکتا ہے۔
پہلا راستہ “ڈی فیکٹو” (de facto) ہے—
یعنی آئین سے ماورا (extra-constitutional) اور تاریخی نظیروں (precedents) پر مبنی۔ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف، دونوں نے بطور چیف آف دی آرمی سٹاف صدر کا عہدہ سنبھالا، اور فوجی ادارہ جاتی کنٹرول (institutional control) اور مطیع عدلیہ (compliant judiciary) کے ذریعے آئینی حدود کو عبور کیا۔ اگرچہ بعد ازاں سپریم کورٹ نے—جیسا کہ 2009 کے “سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن” کیس میں—ایسے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا، لیکن اپنے اپنے دور میں یہ اقدامات مؤثر رہے۔
اگر موجودہ عدلیہ، خاص طور پر 26ویں ترمیم کے بعد، ایگزیکٹو کے تابع (submissive to executive authority) رہے، تو اسی طرح کا عسکری-سیاسی بندوبست “قومی سلامتی” (national security)، “استحکام” (stability)، یا “ایمرجنسی” (emergency) کے نام پر دوبارہ نافذ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے منظرنامے میں آئین کو رسمی طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ حقیقتاً موڑا جائے گا، اور بعد ازاں عدالت اس فیصلے کو “واقعے کے بعد کی توثیق” (retroactive justification of the fait accompli) دے دے گی۔
دوسرا راستہ “ڈی جوری” (de jure) یعنی قانونی و آئینی راستہ ہے:
آئین میں ترمیم کے ذریعے۔ اس کے لیے آرٹیکل 63(1)(k) اور 41(2) دونوں کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ کسی حاضر سروس افسر—یا خاص طور پر فوجی سربراہ—کو نااہلی سے مستثنیٰ قرار دے کر صدارت کے لیے اہل بنایا جا سکے۔ ایسی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ (Senate) دونوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ اگر سیاسی اپوزیشن کمزور، تقسیم شدہ یا زیر اثر ہو، اتحادی جماعتیں مطیع یا مجبور ہوں، اور میڈیا کنٹرول میں ہو تو یہ راستہ قانونی طور پر تو درست ہوگا، لیکن سیاسی لحاظ سے نہایت دھماکہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔
اس سے عسکری بالادستی (military domination) کو کھلی آئینی توثیق مل جائے گی، اور 1973 کے آئین کی بنیادی اصول یعنی سویلین بالادستی منہدم ہو جائے گی۔ عالمی سطح پر خاص کر یورپ کا ردعمل سخت ہو سکتا ہے، جمہوری ممالک کی جانب سے مذمت، اقتصادی امداد میں کمی، اور پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت کے کمزور تشخص کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تیسرا اور زیادہ مبہم راستہ قانون اور سیاست کے درمیانی گرے زون (grey zone between law and politics) میں ہے:
صدر کو آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت حاصل آرڈیننس سازی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے وقتی طور پر نااہلی کی شقوں کو معطل یا ترمیم کرنا، ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کے سٹے آرڈر (stay order) یا لمبی عدالتی کارروائی (prolonged litigation) کے سہارے، جس کے تحت فوری چیلنج سے بچا جا سکے۔ ایسی صورت میں فوج کی پشت پناہی سے قائم ایگزیکٹو پارلیمنٹ کو بائی پاس (bypass) کر دے گا، اور مطیع عدلیہ قانونی رکاوٹوں کو اس وقت تک سنبھالے رکھے گی جب تک فوجی سربراہ صدارت کی منزل حاصل نہ کر لے۔
یہ راستہ آئین کو باضابطہ طور پر تبدیل تو نہیں کرتا، لیکن اس کی مؤثر دفعات کو عارضی ایگزیکٹو احکامات کے ذریعے غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔ یہ ایک خطرناک، کم جواز والا (low-legitimacy) طریقہ ہے جو ادارہ جاتی مفلوجی (institutional paralysis) اور منظم سیاسی مزاحمت کی عدم موجودگی پر منحصر ہوتا ہے۔ پاکستان میں اسی لیے ہر قسم کی مزاحمت کو کچل دیا گیا ہے۔
آخر میں، 1973 کا آئین ایک حاضر سروس آرمی چیف کو صدر بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ پابندی نہ صرف براہ راست دفعات—یعنی آرٹیکلز 41، 62 اور 63—بلکہ آئینی ڈھانچے کی اُس روح (spirit of the constitutional order) سے بھی پیدا ہوتی ہے جو سویلین بالادستی پر قائم ہے۔
لیکن اگر کوئی فوجی سربراہ اپنی عسکری کمان کو چھوڑے بغیر صدارت حاصل کرنے پر مُصر ہو، تو نظام کے قانونی تحفظات کو تین مختلف راستوں سے عبور کیا جا سکتا ہے: ڈی فیکٹو فوجی کنٹرول (de facto military control)، ڈی جوری آئینی ترمیم (de jure constitutional amendment)، یا ایگزیکٹو-عدالتی گٹھ جوڑ (executive-judicial collusion)۔ان میں سے ہر راستہ صرف قانونی چالاکی نہیں بلکہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کی ایک گہری ساختی تبدیلی (deep structural transformation) ہو گی—جو 2008 کے بعد کے پارلیمانی ماڈل کو ایک عسکری-سویلین ہائیبرِڈ نظام (civil-military hybrid regime) سے بدل دے گی، جہاں اختیار وردی والے ایگزیکٹو کے پاس ہو گا۔ ایسی تبدیلی کی قیمت صرف ادارے نہیں بلکہ پاکستان میں آئینی حکمرانی کے تصور کو بھی چکانی پڑے گی۔