انجینیئر افتخار چودھری
یہ 2014 کی بات ہے، میں حج سے واپس آیا تھا۔ جسمانی تھکن اور ایڑیوں کے شدید درد کے باوجود، دل کا بوجھ کہیں زیادہ تھا۔ حج کے دوران جتنا وقت حرمین شریفین میں گزارا، اس کا اثر دل و جان پر تھا، مگر جیسے ہی وطن واپس آیا، ایک اور کرب میرا منتظر تھا۔ مغرب میں ہمارے نبی ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنائے جا رہے تھے اور امت مسلمہ میں اضطراب تھا، احتجاج ہو رہے تھے، مسلمان سراپا احتجاج تھے، مگر یہاں پاکستان میں کیا ہو رہا تھا؟
میں ان دنوں اسلام آباد میں تھا اور پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی پریس کانفرنس ہو رہی تھی۔ جگہ تھی بنی گالہ، ایک بڑا اجتماع تھا۔ خان صاحب کے ساتھ جہانگیر ترین، شیریں مزاری، شفقت محمود، اسد عمر اور دیگر اہم رہنما موجود تھے۔ پریس کانفرنس پورے جوش و خروش سے جاری تھی، مگر ایک ہی موضوع تھا— دھاندلی، دھاندلی اور دھاندلی!
یہ حقیقت ہے کہ 2013 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی تھی۔ تحریک انصاف کا مؤقف بالکل درست تھا کہ ملک میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو، کہیں بھی مسلمان ستائے جائیں، ہمیں اس پر آواز بلند کرنی چاہیے، مگر اس وقت میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ وہ تھا جو نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی سے متعلق تھا۔
پریس کانفرنس جاری تھی، مگر کوئی صحافی یہ سوال نہیں کر رہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس مسئلے پر کیا کہتی ہے۔ میں نے بے چینی سے ارد گرد دیکھا۔ میں خود سے سوال کر رہا تھا:
کیا ہمیں دنیا اور آخرت میں صرف یہی پوچھا جائے گا کہ این اے 122 میں دھاندلی کیوں ہوئی؟
کیا کسی کو یہ احساس ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے؟
کیا کوئی اس پر بات کرے گا؟
یہ دنیا غم تو دیتی ہے، شریکِ غم نہیں ہوتی
پریس کانفرنس ختم ہوئی، سب جانے لگے، مگر میرے اندر کی بے چینی حد سے بڑھنے لگی۔ خان صاحب کی طرف بڑھا، جو ہال سے باہر نکل رہے تھے۔ خان صاحب ہلکی چڑھائی چڑھ رہے تھے اور میں درد کے باوجود آہستہ آہستہ ان کے پیچھے پہنچا۔ میں نے انہیں آواز دی، وہ رکے اور میں نے کہا، ’’خان صاحب، کل آپ مدینہ جا رہے ہیں۔ نبی پاک ﷺ آپ سے پوچھیں گے کہ میرے خاکے بن رہے تھے تو آپ نے کیا کیا؟ کیا وہ یہ پوچھیں گے کہ این اے 122 میں دھاندلی کیوں ہوئی؟ کیا ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی سے بڑا بھی کوئی مسئلہ ہے؟‘‘
خان صاحب رک گئے۔ انہوں نے میری طرف غور سے دیکھا، جیسے میرے الفاظ نے انہیں جھنجھوڑ دیا ہو۔ کچھ لمحے خاموشی رہی، پھر وہ بولے، ’’افتخار، صحافی تو جا چکے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا، اس پر پریس کانفرنس کریں۔ یہ سب سے اہم مسئلہ ہے
یہ وہ لمحہ تھا جب خان صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے پر کھل کر بات کریں گے۔ کچھ ہی دیر میں صحافیوں کو دوبارہ بلایا گیا اور خان صاحب نے ایک بھرپور بیان دیا، جس میں انہوں نے گستاخانہ خاکوں کی شدید مذمت کی اور کہا، ’’یہ وہ ہستی ہیں جو ہمیں اپنی جان، اپنے مال، اپنے والدین، اپنی اولاد اور اپنی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں۔ مسلمان اپنی جان دے سکتا ہے، مگر اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔ مغرب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر نبی پاک ﷺ کی توہین مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔‘‘
یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ خان صاحب نے ایک لیڈر ہونے کا حق ادا کیا، اور میں نے اپنے حصے کا حق ادا کیا۔
یہ تصویر جو اس لمحے کی گواہ ہے، میں اپنی قبر میں فرشتوں کو دکھاؤں گا اور کہوں گا، ’’دیکھو، میں نے وقت کے سب سے بڑے لیڈر کو سیدھا راستہ دکھایا۔ میں نے اسے وہ بات یاد دلائی جو اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھی۔‘‘
میں اکثر سوچتا ہوں کہ دنیا میں لوگوں کے نظریے بدلتے رہتے ہیں، لیڈر آتے جاتے ہیں، لیکن کچھ چیزیں اٹل ہوتی ہیں۔ ہمارے نبی ﷺ کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کی اساس ہے۔ اللہ نے خود فرمایا:
’’اے نبی، ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔‘‘ (سورۃ الشرح، آیت 4)
ہمیں یہ وعدہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ لمحہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا، یہ میرے ایمان، میرے عقیدے اور میرے نبی ﷺ سے محبت کی ایک گواہی تھی۔ میں نے خان صاحب کو روکا، میں نے انہیں یاد دلایا، اور وہ رکے۔ انہوں نے سنا، اور انہوں نے بولنے کا فیصلہ کیا۔
یہ لمحہ اس بات کی گواہی ہے کہ جب کوئی سچ کہنے والا ہو، جب کوئی اخلاص سے بات کرے، تو خان سنتا ہے۔
Pakistan in the World – October 2024